Pages

مولانا محمد الیاس حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی اور علی گڑھ ندوۃ العلما



These lines has been taken from book Maulana Ilyas aur unki deeni dawat  It is a talk between Maulana Abul Hasan Ali Nadvi R.A. and Maulan Ilyas R.A

ایک روزمیں نے عرض کیا کہ حضرت ندوہ کے لوگوں نے اہل دین کی طرف ہمیشہ
 عقیدت کا ہاتھ بڑھایا ہے مگر ان کی طرف اس کے جواب میں محبت کا ہاتھ نہیں بڑھا، ان کو ہمیشہ بیگانگی اور غیر ت کی نگاہ سے دیکھا گیا، خدا کا شکر ہے کہ آپ نے ہمارے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا اور ہمارے ساتھ یگانت کا معاملہ کی
ا ، مولانا کی آنکھوں میں آنسو جاری ہوگئے اور فرمایا ’’ آپ کیا فرماتے ہیں ، آپ کی جماعت تو اہل دین کی جماعت ہیں میںتو علی گڑھ والوں کو بھی چھوڑنے کا قائل نہیں، ان سے بھی بعد اور وحشت صحیح نہیں، اس کا نتیجہ تھا کہ اس دعوت وتحریک میں مظاہر العلوم سہارنپور ، دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم ندوۃ العلماء ، جامعہ ملیہ اور ان کے ساتھ انگریزی کالجوں اور یونیوسٹیوں کے طلبہ اور اساتذہ اور تجارت پیشہ ، ملازمت پیشہ اور ہر طرح کے کاروباری مسلمان دوش بدوش ہیں اور کوئی دوسرے سے متوحش نہیں۔
 مولانا ہر ایک کے امتیاز خصوصی کی خصوصی داد دیتے تھے اور تعریف کرتے تھے ، کسی کی دینداری کی، کسی کی سلیقہ مندی کی ، کسی کی حاضر دماغی اور تجربہ کاری کی، ہاں ان کے نزدیک ہر فطری صلاحیت دین کے کام میں لگنی چاہیے تھی، اس کو کسی اور مصرف میں صرف ہوتے دیکھ کر ان کو بڑا درد ہوتا ، ان کے نزدیک جن لوگوں کو اللہ نے اچھا دل ودماغ ، چستی اور مستعدی اور بلند ہمتی دی ہے ، ان کی توجہ کا دین ، دنیا سے زیادہ مستحق ہے اور ان کی توجہ اور دلچسپی سے دین کا کام بڑی تیزی اور قوت سے ہوسکتا ہے ، ایک دیندار معاملہ فہم کامیاب تاجر کو لکھتے ہیں کہ میں آپ جیسے احباب اور بزرگوں سے طالب رہا کہ آپ میرے معین اور مدد گار بلکہ اس کے اندر ایسی ہمت مردانہ سے کھڑے ہوں کہ آپ ہی اصل ہوں 

No comments:

Post a Comment